سرائیکی زبان کی اہمیت اور

تاریخی حیثیت "ایک مطالعہ 

پنجابی زبان سولہویں صدی میں پہلی بار لکھی جانے لگی ۔ گورمکھی میں گوروانگد نے اس کا رسم الخط ایجاد کیا ۔ سرائیکی ساتویں صدی سے لکھی جا رہی تھی ۔ ذبح نامہ شائع ہو چکا تھا۔ پکھ ، پنکھ ،پر ،ایک ہی لفظ ہے ، پکھ سے پکھو ،، پکھی ،پکھڑو،پکھیرو، یعنی، پروالا ،،،پرندہ،،، مراد ہے ہاتھ سے جھلنے والا پنکھا ، دراصل سرائیکی میں پکھا کہلاتا ہے ،،پکھ سے پکھا اور پھر پنکھ اور پنکھا ہو گیا ۔۔۔یہ سرائیکی زبان کی قدامت ہے جو جدید ہو کر اردو کے اسماء ،تراکیب اور مصادر میں بدل گئ ۔

سرائیکی ہاکڑہ عہد میں موجودہ پاکستان کی زبان تھی اور گنویری والا, جیسلمیر, راجھستان, گوملا, موہنجو داڑو ,ہڑپہ چولستان اور ملتان اس کے بڑے مراکز ہیں 

مشی گن یونیورسٹی کی تازہ تحقیق کے مطابق سرائیکی زبان کا رسم الخط ,,خداوڑی,, رسم الخط کے نام سے پندرھویں صدی میں وجود میں آیا تھا ,

مستنصر حسین تارڑ نے اپنے ناول بہاو میں سرائیکی ہی کے قدیم الفاظ کا استعمال کیا ہے

ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے اپنی مضامین کی مرتب کردہ کتاب

,,ادب کا تاریخی اور تہذیبی تناظر ,,

میں مستنصر حسین تارڑ کے اس ناول ,بہاو, پر تنقید کرتے ہوئے اس ناول میں مستعمل قدیم زبان کے الفاظ کو ,پنجابی, زبان کے الفاظ کہا ہے اس عہد میں سرائیکی زبان ملتانی زبان کے ابتدائی روپ میں مستعمل تھی مگر پنجابی زبان کا ظہور نہیں ہوا تھا اس لئے یہ الفاظ سرائیکی زبان کے ہیں ۔ اور یہ دور 2300 ق۔م سے 1750 ق۔م کا دور ہے . عجیب بات ہے کہ پنجابی زبان کو اس کتاب میں چار ہزار سالہ قدامت بخش دی گئی جبکہ یہ پندرھویں صدی کے بعد سر پیر نکال رہی تھی جبکہ ملتان بذات خود سومیرین عہد سے بھی پہلے سندھ دھرتی تھا اور سندھ کا مرکز تھا , اور ملتانی ,موجود سرائیکی زبان یہاں بولی جاتی تھی ,

ملتان کے دو بڑے سفری راستے مستعمل تھے جو آج بھی دہلی ملتان روڈ اور ملتان اوچ شریف روڈ براستہ قلعہ دراوڑ تا راجھستان کے نام سئ جانے جاتے ہیں , جبکہ ایک اور سفری راستہ سمہ سٹہ بہاول پور سے  چشتیاں امروکہ بٹھنڈہ بارڈر تک جاتا ہے جس کی ریلوے لائن پر بیس سالوں سے ٹرین نہیں چلائی جارہی , 

ویلر,لکھتا ہے کہ " وادئ سندھ کی وہ تہذیب جسے ماہرین آثار قدیمہ نے بابل اور مصر کا ہم ہ ٹھہرایا ہے یہ دریائے سندھ کے کنارے کنارے ہی پروان چڑھی تھی ,اسی ہڑپہ کا تہذیبی دور بھی دریائے راوی کے کنارے کنارے تک محدود رہا '

بحوالہ " ,تایخ مغربی پاکستان, صفحہ, 47

اسی طرح علامہ عتیق فکری اپنی کتاب " نقش ملتان " میں لکھت ہیں کہ ,قلعہ قدیم ملتان سے نکلا ہوا رسم الخط موہنجو ڈورو اور ہڑپہ کی تہذیب کا ہم عصر ہے اور یوں ملتان اور اس کے گردونواح کی تہذیب قبل مسیح 2500 قبل از مسیح کے لگ بھگ معین ہوتی ہے ,

علامہ عتیق فکری, نقش ملتان,صفحہ نمبر 35 تاریخ طباعت جنوری,1982

سرائیکی سندھی سے الگ ایک بھرپور اور مکمل زبان ہے ,ملتان ہزاروں سال تک سندھ کا مرکز رہا ہے ایک دور میں پورے سندھ میں ملتانی کو فروغ حاصل تھا پھر سندھ میں راجھستان اور مہران کی پٹی کے علاقوں میں ایک نئی زبان سندھی رواج پاگئ , اور ہزاروں سال قدیم زبان سرائیکی جو سنتھالیوں کے سرائیکی خطے میں آنے کی وجہ سے وجود میں آئی تھی ملتان اور ملتان کے مضافات کے موجودہ بیس سے زیادہ اضلاع میں موجود رہی اس کے علاوہ اس کی جڑیں بلوچستان کے اندرونی علاقے وانا ,,انرون سندھ ,اندرون خیبر پختونخواہ اور ان کے علاوہ بیرون ممالک میں روس افغانستان دہلی اور راجھستان کے اندرون تک پھیلی ہوئی ہیں , سرائیکی میں ایک کو ، ِ ہک ،ِ ہکو ، کلہا یا کلہڑا، اور سندھی میں ہک ,ہکڑو اور کلہو کہا جاتا ہے سندھی علاقو میں سرائیکی ہی کے کچھ الفاظ واو کے پھیر سے سندھی زبان میں مستعمل ہیں , رحیم یارخان اور سندھ کے دوسرے بارڈرز پر سندھی سرائیکی کے الفاظ ایک جیسی ہیئت اپنا لیتے ہیں ۔ جیسے ، تھویجو ،کریجو ، جب کہ بارڈر سے ہٹ کر یہ لفظ یوں بے جاتے ہیں ،،،، تھیواہے ،،،، کراہے ،،، یا کر گھناہے ،،بعض لفظ کےمصدر کے ساتھ لفظی اضافت کچھ ایسے قدیم الفاظ سے ہمیں روشناس کرواتی ہے ، جیسے للانجنڑ ،، تتانجنڑ ،، پہلے لفظ میں ،لال رنگ کی ہلکی سی شباہت اور دوسرے لفظ میں گرم رو ہونے کی شباہت موجود ہے ۔ لال ،سرخ ،للانج ،سرخی مائل ،نجنڑ ، رکھنے والا ،انگریزی کے Have کے معنی دیتا ہے ۔ تتہ ،گرم ، تتانج ، گرماہٹ ، نجنڑ ،رکھنے والا ،سرائیکی میں اسمائے مصغر اور مکبر بھی عظیم و وسیع ہیں ،جیسے ، منجی ،منجا ،ماچی ،ماچا ،

سرائیکی زبان  ،مہمان خانوں ،جنگلوں ، صحراءوں ،کچے گھروں ،بستیوں اور ٹیلوں سے ہوتی ہوئ پہاڑوں پر چڑھ جاتی ہے ، یہ گاتی ،لہکتی اور مہکتی ہوئ فطری زبان ہے ،
جس کی مٹھاس اور ذائقہ دائمی اور فطری ہے ایک ایسی زبان جو پورے پاکستان میں بولی جاتی ہے ، بار بار کی رد تشکیل کے باوجود ہمیشہ نوتشکیلیت سے گزر کر یہ زبان اور زیادہ صاف ہو کر قومی زبان کے طور پر سامنے آئ ہے ۔

سرائیکی وسیب پر جمعرات کی ڈیوالی " درباروں پر دئے جلانے کی رسم۔ بچوں کے دربار پر جاکر حجامت کروانے " جھنڈ اتروائی کی رسم ۔سنگھڑی دبانے ۔ دست دی صورت وچ اولنڑاں بھننڑ "جنتر منتر ۔ ٹونے ٹوٹکے ۔دیسی و یونانی ادویات کا استعمال یہ سب ہزاروں سالہ ہندو میتھالوجی کے اثرات ہیں جو اس وسیب پر تقسیم کے بعد سرائیکی ہندووں کے یہاں سے بھارت ہجرت کرجانے کے بعد بھی ہماری دھرتی پر موجود ہیں ۔ تاجر ہندووں کے جانے کے بعد ان کے چھوڑے ہوئے شہروں میں بھارت سے ہمارے مسلمان بھائی آئے اور شہری کاروبار قدرتی طور پر ان کے ہاتھ آیا تو سیاست بھی شہر مرکز ہو گئی جس کی وجہ سے مضافات اور دیہات کا سادہ لوح سرائیکی کچھ عرصہ تک مشکلات کا شکار رہا اور اب بھی ہے کیونکہ لاہور مرکز کبھی نہیں چاہتا کہ وسیب کی زراعت اور خام مال ان کی دسترس سے نکل جائے۔اور وسیب فرنچائزڈ نہ رہے ۔ مقامی ابادیات لاہور مرکز نو آبادیات کے تحت لسانی ثقافتی اور معاشی استعماریت کا شکار ہیں اور تب تک رہیں گی جب تک سرائیکی قومیت نیشنلائزڈ نہیں ہوتی ۔ یا رجسٹرڈ نہیں ہوتی ۔ یہ ایک المیہ ہے کہ اس قوم کے نہشنلائزڈ نہ ہونے سے یہاں وسیب میں کیڈٹ کالجز نہیں بنائے گئے ۔ اور نہیں سرائیکی لوگ اکثریتی طور اہم عہدوں پر فوج میں جا سکے ہیں ۔ سول سروس میں بھی اس خطے سے کم لوگ بھرتی ہوتے ہیں اور یہاں مقامی آفیسرز کو بھی کم تعینات کیا جاتا ہے اگر تعینات کیا بھی جائے تو بات پھر وہیں پرآن کر رکتی ہے کہ سرائیکی قومیت رجسٹرڈ نہیں ہو پائی ۔ سرائیکی ایک قوم ہے ۔ جو سارے پاکستان پر حاکم تھی ۔ تقسیم ملک کے بعد لاہور دارالحکومت بنا تو سرائیکیوں کو ضم کر دیا گیا ۔ الگ صوبہ نہ بنایا گیا ۔ حالانکہ ١٨١٨ تک ملتان صوبہ تھا جس میں آدھا سندھ اور لاہور تک کے علاقہ شامل تھے ۔ مگر سکھوں کے حملے کے بعد اب تک اس قوم پر حملے ختم نہیں ہو رہے ۔ رہی سرائیکی کے پنجابی لہجہ ہونے کی بات ۔ تو پنجابی الگ زبان ہے جو دوآبہ سے آگے لاہور بٹھنڈہ بدلدا امرتسر تک بولی جاتی ہے ۔ سرائیکی سنسکرت الاصل ہے ۔ اور تین ہزار سال قدیم ہے سنسکرت اور سرائیکی کے الفاظ ایک جیسے ہیں ۔ سنسکرت کی پہلی کتاب ۔۔۔پتن جلی۔۔۔ بھی ملتان میں لکھی گئ ۔ سرائیکی اسلام کی آمد سے قبل ہندووں کی زبان تھی برہمنوں کی زبان تھی ۔ بعد میں عربوں نے جب راجہ داہر کو شکست دی تو سندھ سے لے کر ملتان تک یہی عرب ۔الراعی۔ بکریاں چرانے والے ارائیں سندھی اور سرائیکی علاقوں میں سرائیکی الاصل ہوگئے جب کہ پنجابی علاقوں میں پنجابی چودھری ۔۔۔ اسی طرح سے سکندراعظم کے عہد میں بھی ہزاروں یونانی سپاہی سرائیکی وسیب میں آباد ہوئے اور واپس نہیں گئے ان کے مقامی آبادی کے ساتھ اختلاط سے اس خطے میں نئ نسلوں کا جنم ہوا جو قدرے زیادہ خوبصورت تھے عربوں کے آنے کے بعد جو یونانی اور ہندو مسلمان ہوئے ان کی عربوں کے ساتھ شادیاں ہوئیں ۔ سرائیکی زبان کی قدامت کا ایک اور ثبوت یہاں کے مرکز ملتان میں ساتویں صدی کے بعد مرثیہ گوئی کا آغاز تھا جس میں یہاں کے مقامی ہندو بھی پیش پیش ہوتے تھے ۔مرثیہ کی یہ رسم ملتان سے لکھنو کی طرف منتقل ہوئی جو کہ سرائیکی قومیت کی دین ہے ۔ غلام حسین عرف گانمن شہید اس خطے کا وہ پہلا شہید تھا جس نے انگریز سامراج کے خلاف اپنے وسیب کے حق میں جان دی اور انگریز فوجی نے انہیں گولی مار کر شہید کیا اور یوں ملتان پر 1848 میں انگریزوں کا قبضہ ہو گیا ساتویں صدی کے بعد سے تاحال یہ زبان ملتان ڈیرہ خازی خان ۔لیہ بھکر میانوالی خوشاب مظفرگڑھ بہاول پور ملتان اور مضافات کے اکیس اضلاع میں بولی جا رہی ہے ۔ رہی ہنجابی تو پنجابی ایک الگ زبان ہے ۔ سرائیکی اردو کی بھی ماں ہے کیونکہ اس کے مصادر اردو زبان سے ملتے جلتے ہیں اور پنجابی کی نسبت یہ اردو کے زیادہ قریب ہے ۔ اب یہ بحث پرانی ہوگئی ہے کہ سرائیکی پنجابی سے نکلی ہے اور اس کا لہجہ ہے ۔ایسا ہرگز نہیں ہے ۔

تحریر کو زیادہ سے زیادہ شئیر کریں

اشرف جاوید ملک

Start a discussion about ککڑ

بحت شروع کرو
ورقہ "ککڑ" تے ولدا واپس ون٘ڄو۔